Header Ads

Breaking News

سلسلہ حیات صحابہ کرام حصہ اول

حيات صحابہ   

حضرت سعيد بن عامر  (رضي الله عنه)


قسط 1۔۔۔۔۔

حضرت سعيد بن عامر (رضي الله عنه) ان ہزاروں میں ایک جوان رعنا تھے جو قریش کے سرداروں  کی دعوت پر مکہ معظمہ  کی بالائ جانب مقام تنعیم کی طرف محض اس چل کھڑے ہوئے تاکہ رسول اللہﷺ کے ایک صحابی حضرت خبیبب بن عدی (رضي الله عنه)  کی شہادت کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں ۔
جنہیں قریش نے دھوکے سے پکڑ لیا تھا۔
اس کے شباب اور ابھرتی ہوئ جوانی نے اسے اس قابل بنا دیا تھا کہ وہ لوگوں کے کندھے پھلانگتا ہوا ابو سفیان بن حرب اور صفوان بن امیہ ایسے سرداران قریش  کے برابر کھڑا ہو سکے۔
وہاں ان دونوں کے سوا اور بھی شہ سرادران عرب موجود تھے اور اگلی صفوں میں بیٹھے ہوئے تھے ۔
اسے اس طرح یہ موقع ملا کہ قریش کے اس اسیر کو بچشم خود دیکھ سکے۔
اس نے اس منظر کا مشاہدہ کیا کہ عورتیں، بچے اور جوان سب اسے موت کی وادی کی طرف بے دریغ دھکیل رہے ہیں ۔
 ان کا مقصد یہ تھا کہ وہ اس صحابی رسول ﷺ کو شہید کر کے آنحضرت ﷺ سے انتقام لیں اور یوں بدر کے مقتولین کی رسوائی کا بدلہ چکائیں۔
جب یہ ہجوم اپنے اس قیدی کو لے کر اس مقام پر پہنچا جو پہلے سے اس کی شہادت کے لیے متعین تھا، تو اس مرحلہ پر طویل القامت نوجوان سعید بن عامر ( رضي الله عنه) نے حضرت خبیب  (رضي الله عنه) کی طرف نظر دوڑائی ۔
 سرداران قریش اسے کشاں کشاں تختہ دار کی طرف لے جا رہے تھے۔ اس نے عورتوں اور بچوں کی چیخ و پکار اور شور میں ایک پروقار اور پرسکون آواز سنی۔
حضرت خبیب ( رضي الله عنه) فرما رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر تمھارے لیے ممکن ہو تو
 مجھے مرنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑ ھنے کی مہلت دو ۔
 پھر سعید بن عامر (رضي الله عنه) نے دیکھا  کہ حضرت خبیب (رضي الله عنه) کعبہ رخ کھڑے ھو کر دو رکعت نماز  پڑھ رھے ھیں یہ دو رکعتیں کیسی تھیں  اتنی حسیں اتنی مکمل کہ کیا کہنے !
 اس کے بعد اس نے دیکھا کہ قوم کے سرداروں کی طرف منہ کر کے حضرت خبیب (رضي الله عنه) یہ کہہ رہے ہیں بخدا اگر مجھے اس بد گمانی کا اندیشہ نہ ہوتا کہ تم کہیں یہ نہ سمجھ بیٹھو کہ میں نے نماز کو موت کے ڈر سے طوالت دی ہے تو میں نماز میں اور زیادہ وقت صرف کرتا۔

 پھر اس نے قریش کے لوگوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ وہ حضرت خبیب (رضي الله عنه) کے جسم کا ایک ایک عضو یکے بعد دیگرے کاٹ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کیا تمہیں پسند نہیں کہ تمھاری جگہ حضرت محمد ﷺ ہوں اور تم اس تکلیف سے بچ جاو؟

ان کی اس حالت میں کے جسم سے خون کے دھارے پھوٹ رہے تھے۔
جواب یہ تھا: اللہ کی قسم! مجھے یہ قطعا پسند نیہں کہ میں اپنے اہل و عیال میں امن اور چین سے رہوں اور حضرت محمد ﷺ کو ایک کانٹا بھی چبھے۔

\پھر جناب سعید بن عامر  نے دیکھا کہ لوگ فضا میں ہاتھ ہلا ہلا کر اور بأواز بلند کہہ رہے ہیں۔
اسے مار ڈالو، اسے مار ڈالو، اس کے بعد انہوں نے حضرت خبیب (رضي الله عنه ) كو دیکھا کہ وہ تختہ دار پر اپنی نظریں آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے اللہ تعالی سے یہ التجا کر رہے ہیں۔ الہی ان سب ظالموں کو شمار کر لے اور انہیں تباہی کا مزہ چکھا اور ان میں سے کسی کو معاف نہ کر۔ یہ کہہ کر انہوں نے زندگی کی آخری سانس لی ۔

 یہ وہ لمحہ تھا جب ان کا جسم تلوار اور نیزوں کر ضربات سے چور تھا اور اتنے زخم کھا چکا تھا کہ جن کا شمار نہیں کیا جا سکتا۔
قریش بالآخر مکہ لوٹ آئے اور اس کے بعد پیش آنے والے بڑے بڑے سنگین معرکوں کے نرغے میں حضرت خبیب (رضی اللہ عنہ ) اور ان کی شہادت کو یکسر بھول بیٹھے ۔



===========>جاری ہے..


         قسط2۔۔۔۔۔

لیکن اس نوجوان سعیدبن عامر رضی اللہ عنہ کے پردہ دل سے ایک لحظہ کے لئے بھی حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کی شہادت کا منظر محو نہ ہوا۔

چنانچہ یہ جب بھی سوتے خواب میں یہ منظر برابر دکھائ دیتا اور بیدار ہوتے تو چشم خیال میں یوں محسوس ہوتا جیسے کہ تختہ دار کے آگے حضرت خبیب رضی اللہ عنہ پورے اطمینان کے ساتھ دو رکعت نماز ادا کر رہے ہیں. یہی نہیں بلکہ ان کی پردرد آواز جیسے ان کے کانوں میں گونج رہی ہے اور وہ قریش کے خلاف بد دعا میں مصروف ہیں اور اس خیال سے ان کا کلیجہ دہل جاتا ہےکہ کہیں آسمان کا کڑکا ان کو آنہ لے یا آسمان سے پتھر گر کر ان کو تباہ نہ کر دیں.

حضرت خبیب رضی اللہ عنہ نے جام شہادت نوش کر کے جناب سعید کو وہ کچھ سکھا دیا جس کا انہیں پہلے قطعی علم نہ تھا.

     انہوں نے سکھایا کہ حقیقی زندگی عقیدہ اور عقیدے کی راہ میں تادم آخر مسلسل جہاد کرنے کا نام ہے.

دوسری بات جو اس واقعہ سے انہوں نے سیکھی وہ یہ تھی کہ پختہ و محکم ایمان ایسے عجیب و غریب کردار کو جنم دے سکتا ہے جو عام حالات میں ظہور پذیر نہیں ہوتے.

علاوہ ازیں انہیں اس حقیقت کا بھی احساس ہوا کہ وہ شخص جس سے اس کے رفقاء اس درجہ محبت رکھتے ہیں کہ اس پر جان نچھاور کردیں ۔

بلاشبہ اللہ سبحانہ و تعالی نے سعید بن عامر رضی اللہ عنہ کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیا ، چنانچہ بر سر مجمع یہ اعلان کر دیا کہ میں سر تسلیم خم کرتا ہوں . میں آج سے مسلمان ہوں...

حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ نے مکہ کی سکونت ترک کر کے مدینہ منورہ کی جانب ہجرت کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی رفاقت اور صحبت میں رہنے لگے۔

 خیبر اور اس کے بعد ہونے والے غزوات میں شرکت کا شرف حاصل کیا۔

     جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے رب کے جوار رحمت کی طرف کوچ کیا ۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ سے ان کی خدمات کی وجہ سے خوش تھے۔

 آپ کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں میں حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ برہنہ شمشیر بن کر رہے. اور ایسی زندگی بسر کی جو مسلمانوں کے لیے کردار کا نادر نمونہ ثابت ہوئ ۔

 جنہوں نے دنیا کو بیچ کر آخرت کا سودا کیا اور اللہ تعالی کی رضا جوئ کو اپنی خواہشات کے مقابلہ میں راجح اور مقدم جانا..

رسول اقدس صلي اللہ علیہ و سلم کے یہ دونوں خلفاء حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ کی صداقت اور تقوی کو خوب جانتے تھے.

 لہذا ان کی نصیحتوں کو غور سے سنتے اور ان کی ہر بات پر کان دھرتے.

    جناب سعید بن عامر رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس اس وقت تشریف لائے جبکہ وہ مسند خلافت پر فروکش ہوئے ہی تھے.

    آپ نے فرمایا : اے عمر رضی اللہ عنہ میں تمہیں اس بات کی وصیت کرتا ہوں کہ لوگوں کے معاملہ میں اللہ تعالی سے ڈر تے رہنا اور اللہ تعالی کے بارے میں لوگوں سے کبھی نہ ڈرنا اور یہ کہ تمہارے قول اور فعل میں تضاد کبھی نہ ہو نا چاہئے .

 اس لئےکہ انسان کی بہترین گفتار وہی ہوتی ہے. جس کی تصدیق اس کا کردار کرے.

    اے عمر رضی اللہ عنہ !
اللہ سبحانہ وتعالی نے جن مسلمانوں کا تمہیں نگران بنایا ہے .ان کے معاملات کی طرف خصوصی دھیان دیتے رہنا.

ان کیلئے وہی پسند کرنا جو خود تمہیں اپنے اور اپنی اولاد کی لیے پسند ہو.

 اور ان کے لیے ہر اس چیز کو نا پسندیدگی کی نظر سے دیکھنا جو خود تمہیں اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال کے لیے نا پسندیدہ ہو.

 شدائد کا سامنا کرنے سے نہ گھبرانا اور راہ حق پر مضبوطی سے جمے رہنا اور حق کی راہ میں کسی بھی ملامت کرنے والے کی ملامت کو خاطر میں نہ لانا.

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
سعید رضی اللہ عنہ ! بھلا کس میں یہ ہمت ہے کہ ان ذمہ داریوں سے عہد برآ ہو سکے؟
\\
سعید رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

آپ اس کے اہل ہیں. آپ ان لوگو ں میں سے ہیں جن کو اللہ تعالی نے امت محمدیہ صلي اللہ علیہ و سلم کی نگرانی کا فریضہ سونپا.

===========>جاری ہے..


          قسط3۔۔۔۔۔

آپ سے زیادہ اور کوئ اس کا مستحق نہیں۔

     اس مرحلہ پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جناب سعید رضی اللہ عنہ کو اپنی نصرت و تائید کے لئے دعوت دی اور فرمایا:
   اے سعید رضی اللہ عنہ ہم تمہیں علاقہ حمص کا گورنر مقرر کرتے ہیں۔

   انہوں نے اس کے جواب میں فرمایا:

   اے عمر رضی اللہ عنہ اللہ کا واسطہ ہے، "مجھے اس آزمائش میں نہ ڈالئے۔ "

 حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر خفا ہو کر فرمایا:

    بڑے افسوس کی بات ہے کہ تم نے خلافت کا بار تنہا میری گردن پر ڈال دیا.اور خود اس سے الگ تھلگ ہونے کی کوشش کر رہے ہو۔

 خدا کی قسم میں چھوڑ نے والا نہیں۔

  اس کے بعد آپ نے ان کو صوبہ حمص کا گورنر مقرر کیا اور ارشاد فرمایا:

  کیا تمہارے لیے ہم کچھ معاوضہ مقرر نہ کر دیں.?
   اس پر سعید رضی اللہ عنہ نے کہا.
امیر المومنین ! میں معاوضہ لے کر کیا کروں گا. بیت المال سے جو ملتا ہے وہ بھی میری ضرورت سے زیادہ ہے. یہ کہا اور حمص کی طرف چل دیے.

  کچھ عرصہ بعد اہلیان حمص میں سے قابل اعتماد افراد پر مشتمل ایک وفد امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔

آپ نے وفد کو حکم دیا.
   تم لوگ مجھے ان افراد کے نام لکھ کردو جو تم میں مفلس و نادار ہیں تاکہ میں ان کی مالی مدد کر سکوں. وفد نے آپ کی خدمت میں ایک دستاویز پیش کی۔

 آپ کیا دیکھتے ہیں کہ اس فہرست میں حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ کا نام بھی درج ہے.۔

آپ نے دریافت فرمایا:
  کون سعید بن عامر رضی اللہ عنہ
انہوں نے بتایا کہ ہمارا گورنر
فرمایا  آپ کا گورنر مفلس ہے؟

انہوں نے کہا جی ہاں ، خدا کی قسم ! کئ کئ دن ان کے چولہے میں آگ نہیں جلتی.

 یہ سننا تھا کہ عمر رضی اللہ عنہ بے اختیار رو پڑے اور اتنے روئے کہ آپ کی ڈاڑھی مبارک آنسوؤں سے تر ہوگئ.

آپ اٹھے اور ہزار دینار لئے اور ان کو ایک تھیلی میں بھرکر فرمایا:

    اس سے میرا سلام کہنا اور یہ پیغام دینا کہ امیر المومنین نے یہ تھیلی تمہارے لئے بھیجی ہے تاکہ اس سے تم اپنی ضروریات کو پورا کرسکو.

   یہ وفد حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ کے ہاں تھیلی لے کر آیا . آپ نے دیکھا کہ اس میں تو دینار ہیں تھیلی کو اپنے سے دور ہٹا کر بس یہ کہنے لگے.

  انا للہ و انا الیہ راجعون..

  گویا کوئ بپتا نازل ہوگئ یا کوئ ناگوار واقعہ پیش آگیا.

یہ کیفیت دیکھ کر آپ کی بیوی گھبرائ ہوئ اٹھی اور کہنے لگی..
  میرے سر کے تاج! کیا سانحہ رونما ہوگیا!.

  کیا امیر المومنین وفات پا گئے؟

  آپ نے فرمایا. نہیں بلکہ یہ بات کہیں زیادہ اہم ہے.
   اس نے پوچھا..کیا کسی معرکہ جہاد میں مسلمانو ں کو کوئ صدمہ پہنچا؟

  آپ نے فرمایا.اس سے بھی بڑی بات-
  اس نے عرض کی. بھلا اس سے بڑی بات کیا ہو سکتی ہے؟

  فرمایا:

  میرے ہاں دنیا اور آئ تاکہ میری آخرت بگاڑ دے. میرے گھر فتنہ ابھر آیا.

اس نے عرض کی..
  کیوں نہ آپ اس فتنہ سے گلو خلاصی کر لیں. اسے دیناروں کے بارے میں کچھ علم  نہ تھا.

انہوں نے فرمایا.
کیا اس سلسلہ میں میری مدد کروگی؟


===========>جاری ہے..

قسط4۔۔۔۔۔۔

عرض کی جی ہاں , کیوں نہیں۔

آپ نے دینار متعدد تھیلیوں میں بند کئے اور غریب مسلمانوں میں تقسیم کر دیے۔
   
      اس واقعہ کو زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیار شام تشریف لاے-

مقصد یہ تھا کہ اس علاقہ کے حالات معلوم کر سکیں.

ان دنوں حمص کانام کویفہ پڑگیا تھا جو لفظ کوفہ کی تصغیر ہے. یہ اس نام سے اس لئے مشہور ہوا کہ یہاں کے لوگ عمال حکومت کے خلاف شکوہ شکایت کرنے میں اہل کوفہ سے بہت حد تک مشابہت رکھتے تھے.

جب عمر رضی اللہ عنہ کی تشریف آوری حمص میں ہوئ تو یہاں کے لوگ آپ کو سلام عرض کرنے کی خاطر حاضر ہوئے.

آپ نے دریافت فرمایا..
تم نے اپنے امیر کو کیسے پایا؟

 انہوں نے شکایت میں زبان کھولی اور ان کے طرز عمل کے بارے میں چار باتیں کہیں. جو ایک دوسری سے بڑھ چڑھ کر تھیں.
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے گورنر اور شکایت کرنے والوں کو ایک ساتھ طلب کیا اور اللہ تعالی سے دعا کی حضرت سعید رضی اللہ عنہ کے بارے میں وہ گمان کو جھوٹا نہ ہونے دے.

مجھے اس پر اعتماد تھا. جب یہ لوگ اور ان کا گورنر بوقت صبح میرے پاس آئے تو میں نے دریافت کیا تمہیں اپنے گورنر سے کیا گلہ ہے؟

انہوں نے بتایا.
کہ یہ دن چڑھے تک گھر  سے باہر نہیں نکتے ہیں۔

اس پر میں نے پوچھا سعید رضی اللہ عنہ تم اس سلسلہ میں کیا کہنا چاہتے ہو؟

سعید رضی اللہ عنہ چند لمحے خاموش رہے۔ پھر کہا.
بخدا میں اس سلسلہ میں کچھ کہنا نا پسند کرتاتھا، لیکن اب اس کے بغیر کوئ چارہ کار نہیں کہ میں حقیقت حال صاف صاف بیان کردوں۔

صورت حال یہ ہے کہ گھر میں میرے پاس کوئ خادم نہیں ۔ میں صبح سویرے اٹھتا ہوں ۔
اور اہل خانہ کیلئے آٹا گوندھتا ہوں. پھر تھوڑی دیر تک انتظار کرتاہوں تاکہ آنے میں خمیر پیدا ہوجائے، بعد ازاں ان کے لئے روٹی پکاتا ہوں۔

پھر وضو کر کے لوگوں کی خدمت کے لئے گھر سے نکل کھڑا ہوتا ہوں۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
کہ میں نے ان سے پوچھا کہ تمہیں ان کے خلاف اور کیا شکایت ہے؟

انہوں نے کہا کہ یہ رات کے وقت کسی کی نہیں سنتے۔

میں نے کہا سعید رضی اللہ عنہ اس اعتراض کا تمہارے پاس کیا جواب ہے؟

فرمایا. بخدا! میں اس امر کا اظہار بھی نا پسند کرتا ہوں۔

 مختصرا یہ عرض ہے کہ میں نے دن ان کے لئے وقف کررکھا ہے اور رات اللہ عزوجل کی عبادت کے لئے۔

میں نے پوچھا.
آپ کو ان کے خلاف اور کیا شکایت ہے۔

وہ بولے مہینہ میں ایک دن غفلت سے کام لیتے ہیں۔

میں نے دریافت کیا سعید رضی اللہ عنہ یہ کیوں!

سعید رضی اللہ عنہ نے کہا امیر المومنین ! میرے پاس نہ کوئ غلام ہے نہ ان کپڑوں کے سوا میرے پاس کپڑوں کا کوئ جوڑا ہے۔

 اس وقت جو کپڑا میں نے پہن رکھے ہیں۔
مہینہ میں ایک مرتبہ دھوتا ہوں۔ پھر منتظر رہتا ہوں کہ یہ خشک ہو جائیں.جب یہ خشک ہو جاتے ہیں تو میں انہیں کو پہن کر دن کے آخری حصہ میں ان کا سامنا کرتاہوں۔

پھر میں نے دریافت کیا..
کوئ اور شکایت؟

انہوں نے کہا

مجلس میں بیٹھے بیٹھے کبھی کبھی ان پر غشی طاری ہو جاتی ہےاور یوں معلوم ہوتاہےکہ اہل مجلس سے ان کا کوئ تعلق نہیں
 میں نے پوچھا سعید رضی اللہ عنہ! یہ کیا بات ہے؟

===========>جاری ہے..


قسط5۔۔۔۔۔

میں نے پوچھا سعید رضی اللہ عنہ! یہ کیا بات ہے؟

میں اس وقت مشرک تھا. میں نے دیکھا کہ قریش اس کی بوٹیاں کاٹ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں.

کیا تجھے یہ بات پسند ہے کہ تمہاری جگہ حضرت محمدﷺ  ہوں؟

حضرت خبیب ( رضي الله عنه) جواب میں کہتے ہیں.
 اللہ کی قسم ! میں یہ ہرگز پسند نہیں کرتا کہ میں تو اپنے اہل وعیال میں اطمینان سے رہوں اور حضرت محمد ﷺ کے جسم میں ایک کانٹا بھی چبھنے پائے .

جب بھی وہ دن مجھے یاد آتا ہے, سوچ میں پڑجاتاہوں کہ میں نے اس دن ان کی کیوں مدد نہ کی.

ڈرتا ہوں کہ شاید اللہ تعالی میرا یہ جرم معاف نہ کرے. اس کے بعد مجھ پر غشی طاری ہوجاتی ہے.

یہ سنا تو حضرت عمر ( رضي الله عنه) نے ارشاد فرمایا:

اللہ کا شکر ہے کہ جس نے سعید ( رضي الله عنه) کے بارے میں میرے حسن ظن کو غلط ثابت نہیں کیا.

 اس کے بعد آپ نے ایک ہزار دینار بھیجے تاکہ ان سے اپنی ضروریات پوری کرلیں.

جب یہ دینار حضرت سعید ( رضي الله عنه) کی بیوی نے دیکھے تو کہہ اٹھی کہ اللہ کا شکر ہےجس نے ہمیں آپ کی خدمات سے بے نیازی بخشی.

ہمارے لئے ضرورت کی اشیاء خرید لیجئے اور گھر کے کام کاج کے لئے ایک خادم رکھ لیجئے.

 اس پر آپ نے بیوی سے فرمایا:
میں تجھے وہ چیز نہ دوجو اس سے بھی بہتر ہو.

بیوی نے کہا بھلا وہ کیاہے؟
فرمایا. یہ دینار ہم اسی کو لوٹا دیں جو ہمارے پاس لایا ہے.ہم ان دیناروں سے کہیں زیادہ اس کے محتاج ہیں.

بیوی نے کہا.وہ کون؟
فرمایا. کیوں نہ ہم اللہ تعالی کو قرضہ حسنی دے دیں.

بیوی نے عرض کی.
آپ نے بجا ارشاد فرمایا.اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے.

آپ نے اسی مجلس میں دیناروں کو مختلف تھیلیوں میں رکھا اور اپنے اہل خانہ میں سے ایک شخص کو حکم دیا کہ جاؤ فلاں کی بیوی, فلاں  کے یتیم بچوں اور فلاں خاندان کے مساکین اور فلاں قبیلہ کے محروموں میں تقسیم کراؤ.

اللہ تعالی نے حضرت سعید بن عامر ( رضي الله عنه) کو سند رضاسے نوازا.

آپ ان لوگوں میں سے تھے جو دوسروں کو اپنی ذات پر تر جیح دیتے ہیں,  چاہے خود گھاٹے میں رہیں.

           حضرت سعید بن عامر ( رضي الله عنه) کے مفصل حالات زندگی معلوم کر نے کے لئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کیجئے.

1 تذیب التذیب      51/4

2 ابن عساکر         6 / 147-145

3 صفۃ الصفوۃ     1 / 273

4 حلیۃ الاولیاء     1/ 244

5 تاریخ اسلام      2 / 35

6 الاصابہ             3 / 326

7 نسب قریش       399

                         
===========>ختم شده


تالیف۔۔۔۔ ڈاکٹر عبد الرحمن رافت الباشا
ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر

Mohammad Azam Qazi طالب دعا۔۔ 

No comments